ہر روز دل اداس ہوتا ہے اور شام گزر جاتی ہے 

ایک روز شام اداس ہو گی اور ہم گزر جائیں گے 


اداسی اور مایوسی بھری اک شام آئے گی 
میری تصویر رکھ لینا تمہارے کام آئے گی 



موجود تھی اداسی ابھی پچھلی رات کی 
بہلا تھا دل ذرا سا کہ پھر رات ہو گئی 


کاش وہ آجائے اور لڑ کر یہ کہے 
ہم مر گئے ہیں جو اتنا اداس رہتے ہو 



اداس دیکھ کے وجہ ملال پوچھے گا 
وہ مہرباں نہیں ایسا کہ حال پوچھے گا 



میرے حصے کا تم مسکرایا کرو 
میں شہزادی ہوں اداس فرقے کی 



اداسی چیختی ہےقہقہوں میں 
ہمارا درد سب سے الگ ہے 



مل کر ان سے کیا ہوا حاصل 
مفت میں زندگی اداس کر بیٹھے 



پہلے آ جاتی تھی قابُو میں اُداسی پر اب 
ایسی وحشت ہے کہ لوں سانس تو دل دکھتا ہے 



حسین جسم کی رنگت پہ تبصرے سے قبل 
اداس آنکھوں کے حلقوں پہ بات کی جائے 



وقت بدل دیتا ہے زندگی کے سبھی رنگ 
کوئی چاہ کے بھی اپنے لئے اداسی نہیں چنتا 



جاتے جاتے دنیا سے اداس کر گیا میری زندگی کو 
ایک شخص میری زندگی میں بہت خاص تھا 


جن لوگوں کے کہنے پر تم نے مجھے چھوڑ دیا تھا 

آج وہی بتا رہے ہیں کہ تم اکثر اداس رہتے ہو 


جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ 

جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں 


رشوت بھی نہیں لیتا کمبخت 

مجھے لگتا ہے مسلمان ہی عشق 


جو رات دن میرے مرنے کی کر رہے تھے دعا 

وہ رو رہے ہیں جنازہ میں ہچکیاں لے کر 


وہ مل جائے مجھے تو یوں سمجھو گا ساگر 

جنت کا اعلان ہو کسی گنہگار کے لیے 


نہ جانے کیسا سمندر ہے عشق کا جس میں 

کسی کو دیکھا نہیں ڈوب کے ابھرتے ہوئے 


ایک چہرہ ہے جو آنکھوں میں بسا رہتا ہے 

ایک تصور ہے جو تنہا نہیں ہونے دیتا